مرے چمن کو جہاں میں یہ سرفرازی ہے



مرے چمن کو جہاں میں یہ سرفرازی ہے
ہر ایک پھول نئی زندگی کا غازی ہے

بہار میں بھی سُلگتے رہے ہیں کاشانے
کہ یہ بھی ایک طرح کی ستم طرازی ہے

میں اس مقام پر تجھ کو تلاش کرتا ہوں
حقیقتوں کا تصرف جہاں مجازی ہے

خُدا کے نام پہ پہلا سُبو اُٹھاتے ہیں
کہ مے کشوں میں یہی رسمِ پاکبازی ہے

تمہاری زلفِ پریشاں کودام کہ دینا
بڑا حَسین طریقِ فغان نوازی ہے

رَوش رَوش پر ہیں برق و شرر کے ہنگامے
مجھے یقیں ہے بہاروں کی کار سازی ہے

لِکھو!یہ عِظمتِ ہستی کے باب میں ساغرؔ
کہ غزنوی کی جلالت غمِ ایازی ہے

(ساغرؔ صدیقی)