محبتوں میں ہر ایک لمحہ وصال ہوگا، یہ طے ہوا تھا 
بچھڑ کے بھی اک دوسرے کا خیال ہوگا، یہ طے ہوا تھا

وہی ہوا نا بدلتے موسم میں تم نے ہمکو بھلا دیا ہے
کوئی بھی رت ہو نہ چاہتوں کو زوال ہوگا، یہ طے ہوا تھا

یہ کیا کہ سانسیں اکھڑ گئی ہیں سفر کے آغاز میں ہی یارو
کوئی بھی تھک کر نہ راستے میں نڈھال ہوگا، یہ طے ہوا تھا

جدا ہؤے ہیں تو کیا ہوا پھر یہی تو دستور زندگی ہے
جدائیوں میں نہ قربتوں کا ملال ہوگا، یہ طے ہوا تھا

چلو کہ اب کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر 
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہوگا، یہ طے ہوا تھا



ابن انشا


سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے

سائیاں رات ادھوری ہے، سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن، سائیاں گھات ادھوری ہے

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گزر گئے ہیں سال بہت

سائیاں ہر سو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اک اک فرد بہت

سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اک ہی پہر بہت

سائیاں دل مجبور بہت، روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت، اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تو بھی ہم سے دور بہت

سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہے، بہلانے کے ڈھنگ بہت

سائیاں میرے تارے گم، رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم، آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے، راکھ میں ہوئے شرارے گم

سائیاں رشتے ٹوٹ گئے، سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے، تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے، جو لوٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

سائیاں تنہا شاموں میں، چنے گئے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے ہے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں، اپنا نام نہ ناموں میں

سائیاں ویرانی کے صدقے، اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے، لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں، اپنی رحمانی کے صدقے

سائیاں میرے درد گھٹا، سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا، سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں، سائیاں اپنا آپ دکھا

ابن انشا

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے

چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے

اس رینگتی حیات کا کب تک اٹھائیں بار
بیمار اب الجھنے لگے ہیں طبیب سے

اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نبھاہ رہا ہو رقیب سے —


وے ماہیا تیرے ویکھن نوں..
چُک چرخہ گلی دے وچ ڈانواں..


میں لوکاں باہنے سوت کتدی
تند تیریاں یاداں دے پاواں
بابل دی سوں جی نئی لگدا
ساڑے سیک ہجر دی اگ دا
اج میرا دل کردا۔۔
گھر چھڈ کے ملنگ بن جاواں

چرخے دی کُو کڑ دے اوہلے
یاد تیری دا تُنبہ بولے
میں نما نما گیت چھیڑ کے
تند کھچدی ہُلارے کھانواں

وسن نئی دیندے سورے پیکے
ہر دم تیرے پین پلیکھے
وے ھن مینوں دس ماھیا
تیرے باجوں کدر نوں جانواں

وے ماہیا تیرے ویکھن نوں
چُک چرخہ گلی وچ ڈانواں



ﺳﺮﺍﭘﺎ ﻋﺸﻖ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ 
ﺟﺪﮬﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﺍُﺩﮬﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ 

ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﯾﮧ ﺩﻝ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ 
ﻣﮕﺮ ﺣﺎﻻ‌ﺕ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ 

ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ 
ﺟﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺳﻨﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﮑﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ 

ﯾﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮔﺎ ﻓﺮﺍﺯ 
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺏ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺳﻨﻮﺭ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ



عُذر آنے میں بھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعثِ ترکِ ملاقات بتاتے بھی نہیں

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں

ہو چکا قطع تعلق تو جفائیں کیوں ہوں
جن کو مطلب نہیں رہتا وہ ستاتے بھی نہیں

کیا کہا، پھر تو کہو، ہم نہیں سنتے تیری
نہیں سنتے، تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں

زیست سے تنگ ہو اے "داغ" تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں




عجیب لڑکی تھی رہتی تھی بس خیالوں میں

وہ ضرب کرتی تھی تقسیم کے سوالوں میں


کلاس روم میں ـــــــــ پینسل تلاش کرتی تھی

وہ بھول جاتی تھی لگا کر، اس کو بالوں میں


اس کی آنکھوں سے بظاہر تھی ہر اک بات جیسے

وہ بند رہتی تھی ـــــــــــــ دل کے ہزار تالوں میں


وہ پیار چھوٹوں سے عزت بڑوں کی کرتی تھی

نہ میں بچوں میں آ سکا، نہ عمر والوں میں


محسن اگر اب بھی حسینوں کے چہرے نہ پڑھے

تو ہم نے سیکھا کیا کالج کے دو سالوں میں


لیکن میرے سامنے آ کر وہ اور بھی کچھ انجان ھوا


جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا
اپنا کیا ھے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ھوا

یہ دل،یہ آسیب کی نگری،مسکن سوچوں وھموں کا
سوچ رھا ھوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ھوا؟

صحرا کی منہ زور ھوائیں اوروں سے منسوب ھوئیں
مفت میں ھم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ھوا

میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ھیں انسان تو پھر انسان ھوا

اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ھوا

کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا
آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ھوا

اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
اس سے کیسا شکوہ کیجیے وہ تو ابھی نادان ھوا

جن اشکوں کی پھیکی لو کو ھم بیکار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ھوا

یوں بھی کم آمیز تھا"محسن"وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر وہ اور بھی کچھ انجان ھوا






abhi abhi merey dil main khayal aaya hai