اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھ کو تو جُستجو


اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھ کو تو جُستجو
بھنورے سے مِلتی جُلتی ہے میں نے کہا یہ خُو

پُوچھا، بتاؤ درد کو چھُو کر لگا ہے کیا ؟
آیا جواب ، پوروں سے رسنے لگا لہو

دیکھا ہے کیا فلک پہ وہ تنہا اُداس چاند؟
آیا جواب ، اُس کو کسی کی ہے جُستجو !

ہوتی ہے کیوں یہ اَشکوں کی برسات رات بھر
آیا جواب ، آنکھوں کا ہوتا ہے یُوں وضو

پُوچھا گیا نصیب کے سُورج کا کیا بنا ؟
میں نے کہا وہ سو گیا ، ایسا بنا عدو

پُوچھا ، نمی سے ، دھُند سی آنکھوں میں کس لئے ؟
آیا جواب ، ہجر کی ان میں ہوئی نمو

پُوچھا ، بچھڑتے پل کی کوئی اَن کہی ہے یاد ؟
تارِ نفس پہ لکھی ہے اب تک وہ گفتگو

پوچھا ، سنو وصال کی چٹخی ہے کیوں زباں؟
میں نے کہا ، فراق کا صحرا تھا رُو برو

اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب!


اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب!
لگ چکی تیری سیاہی دل پر
آچکی جو تھی تباہی ،دل پر
زرد ہے رنگ ِ نظر،آج کی شب
خاک کا ڈھیر ہوئے خواب نگر
آج کی شب
اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب

کم نظر دیکھ ہوا کی آہٹ
کس کی خوشبو میں بسی آتی ہے
کون سا عکس ہے جس کی خاطر
آنکھ آئینہ بنی جاتی ہے!

کس طرح چاند اچانک جھک کر
سرد شاخوں سے لپٹ جاتا ہے
کس طرح رنگِ چمن
ایک چہرے میں سمٹ جاتا ہے
سیلِ امواجِ تمنّا کیسے
ساحلِ دل سے پلٹ جاتا ہے
اور کس طور سے طے ہوتا ہے
لڑکھڑاتے ہوئے تاروں کا سفر آج کی شب
بے ہنر! آج کی شب
مجھ کو جی بھر کے اُسے یاد تو کر لینے دے
دولت ِ درد سہی جیب تو بھر لینے دے

itna sa yaad rakh mujhy |


اتنا سا ياد ركھ مجهے
جيسے كسي كتاب ميں
بيتے دنوں كے دوست كا
اك خط پڑا هوا ملے
لفظ مٹے مٹے سے هوں
 رنگ اڑا اڑا سا هو
ليكن وه اجنبي نه هو
بهولے هوئے تمام دكھ
گزرے هوئي تمام سكھ
بيتے دنوں كا سب كچھ
تجھ سے كہے اور رو پڑے
اتنا سا ياد ركھ مجهے
كه جب كبهي بات بے بات
ياد هماري أ جائے
تو تهوڑا سا مسكرا لينا
اور دل كو يه سمجها لينا
ناداں سا تها پر اچها تها
اك دوست همارا سچا تها

kalyan ishq kamana okha



"بلے شاہ"

کلیاں عشق کمانا اوکھا
کسے نوں یار بنانا اوکھا

پیار پیار تے ہر کوئ بولے
کرکے پیار نبھانا اوکھا

ہر کوئ دکھاں تے ہس لیندا
کسے دا درد ونڈانا اوکھا

گلاں نال نہیں رتبے ملدے
جوگی بھیس وٹانا اوکھا

کوئ کسے دی گل نئیں سندا
لوکاں نوں سمجھانا اوکھ