اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب!


اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب!
لگ چکی تیری سیاہی دل پر
آچکی جو تھی تباہی ،دل پر
زرد ہے رنگ ِ نظر،آج کی شب
خاک کا ڈھیر ہوئے خواب نگر
آج کی شب
اے غمِ یار ٹھہر آج کی شب

کم نظر دیکھ ہوا کی آہٹ
کس کی خوشبو میں بسی آتی ہے
کون سا عکس ہے جس کی خاطر
آنکھ آئینہ بنی جاتی ہے!

کس طرح چاند اچانک جھک کر
سرد شاخوں سے لپٹ جاتا ہے
کس طرح رنگِ چمن
ایک چہرے میں سمٹ جاتا ہے
سیلِ امواجِ تمنّا کیسے
ساحلِ دل سے پلٹ جاتا ہے
اور کس طور سے طے ہوتا ہے
لڑکھڑاتے ہوئے تاروں کا سفر آج کی شب
بے ہنر! آج کی شب
مجھ کو جی بھر کے اُسے یاد تو کر لینے دے
دولت ِ درد سہی جیب تو بھر لینے دے