کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں | مرزا اسد اللہ غالب


کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں

یہ سُوء ظن ہے ساقئ کوثر کے باب میں



ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخئ فرشتہ ہماری جناب میں



جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع

گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں



رَو میں‌ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں



اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے

جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں



اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے

حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں



ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر

یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں



شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی

ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں



آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں



ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود

ہیں‌خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں



غالب ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغولِ حق ہوں، بندگئ بُو تراب میں



مرزا اسد اللہ غالب


مت دے مجھکو الزام پیا!


میں دن ڈھلتا میں شام پیا
مرا جیون کتنا عام پیا

مرے چاروں اور ہوائیں ہیں
میں ریت پہ لکھٌا نام پیا

ھے کون سخی،ھے کون کھرا
مجھے لوگوں سے کیا کام پیا

ترا نام لکھا ھر بُوٹے پر
اور میں صحرا گُمنام پیا

مری اکھیوں میں کچھ دیر ٹھہر
جھٹ کر لے تُو آرام پیا

تُو چھوڑ گیا تو دکھتا ھے
سُونا آنگن،ھر گام پیا

تُو ھرجائی ھے ازلوں کا
مت دے مجھکو الزام پیا!

ہم یہ گرتی ہوئ دیوار سنبھالے ہوۓ ہیں


ہم تو زنجیر _ سفر شوق میں ڈالے ہوۓہیں

ورنہ یہ انفس و آفاق کھنگالے ہوۓہیں



جان و تن عشق میں جل جائيں گے جل جانے دو

ہم اسی آگ سےگھر اپنا اجالے ہوۓہیں



کب سے مژگاں نہیں کھولے مرے ہشیاروں نے

کتنی آسانی سے طوفان کو ٹالے ہوۓہیں



اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو

بھائ ،ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوۓہیں



ہم نے کیا کیا تجھے چاہا ہے انہیں کیا معلوم

لوگ ابھی کل سے ترے چاہنے والے ہوۓہیں



کہیں وحشت نہیں دیکھی تری آنکھوں جیسی

یہ ہرن کون سے صحراؤں کے پالے ہوۓہیں



دل کا کیا ٹھیک ہے آنا ہے تو آجا کہ ابھی

ہم یہ گرتی ہوئ دیوار سنبھالے ہوۓہیں

دَس او سجنا کِيويں پُل جائيے اپنياں پِنڈاں تھاواں نُوں


دَس او سجنا کِيويں پُل جائيے اپنياں پِنڈاں تھاواں نُوں
ديسى رِيت رواجاں نُوں تے رب وَرگِياں ماواں نُوں
کِيويں پُل جائيے او بچپن جيڑا، پِنڈ وچ رہ کے بِيت گيا
ہار گيا ساڈا پنجابى وِرثا، پر اے فيشن جِيت گيا
نِکے نِکے ہُوندے سى، ماں نے اَوٹھانا کَن دے اُتوں پھڑ کے جى
لے او پُتر پَھڑ لے قاعِدہ آ مسيتوں پڑھ کے جى
مسيتوں پڑھ کے گھر نُوں مُڑنا ،ماں نے دودھ مدھانى پَھير لينى
بہى روٹى دہى لَسى مکھنى اُتوں ہور دينى
لَسى لين لئى آئى گوانڈن گلاں کرَن لئى کَير لينى
پِنڈ وچ اِک سکول ہُوندا سى، جِتھے پڑھن لئى جاندے سى
ٹاکياں دا بستہ مليشى دى وردى، نہ کوئى ڈيکس نہ ٹاک ہونا
بورى گھروں لے جاندے سى، جمعے دى اِک چھٹى ہونى
مُربے چلدا ويلنا جى ٹھنڈى ٹھنڈى روھ پينى تَتا تَتا گُڑھ کھانا
ننگے پَيريں چُورے اُتے کھيلنا جى
باپ دى اُنگلى پَھڑ کے جيڑے ميلے وَيکھ لے
ٹَبر دا اِتفاق نى مُڑنا جو کٹھياں چُولے سَيک لے
شہر وسينديا سجنا بڑا ہى کرم رب دا اے
اصلى پيار محبت اج وى پِنڈا دے وچ لب دا اے
سانُوں ہلے تک نى پُليا شہر تُوں سوہنا چَک نى پُليا
ہَرنى ورگى اَکھ نى پُلى چِيتے ورگا لَک نى پُليا

قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے


اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے

اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے



ہم اہل محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے

ہم اہل محبت کو آزاد جوانی ہے



ہاں چاند کے داغوں کو سینے میں بساتے ہیں

دنیا کہے دیوانا۔۔۔ دنیا دیوانی ہے



اک بات مگر ہم بھی پوچھیں جو اجازت

کیوں تم نے یہ غم یہ کر پردیس کی ٹھانی ہے



سکھ لے کر چلے جانا، دکھ دے کر چلے جا نا

کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے



ہدیہ دل مفلس کا چھ شعر غزل کے ہیں

قیمت میں تو ہلکے ہیں انشا کی نشانی ہے


ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺗﮭﺎ

ﻣﺤﺒﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺗﮭﺎ
 ﻧﮧ ﻋﺪﺍﻭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺗﮭﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻋﺬﺍﺏ ﺗﮭﯽ
 ﮐﺒﮭﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﭘﯿﺎﺱ ﺍُﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ
 ﮐﮧ ﺳﺮﺍﺏ ﺟﺘﻨﮯ ﻣﻠﮯ ﻣﺠﮭﮯ

ﮨﻮﺍ ﺩﮬﻮﮐﮧ ﺟﺲ ﭘﮧ ﮔﻼﺏ ﮐﺎ
 ﻭﮦ ﺳﻠﮕﺘﺎ ﺟﻠﺘﺎ ﺷﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ
ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯﻣﮍ ﮐﮯ ﺻﺪﺍ ﻧﮧ ﺩﯼ
 ﭘﻠﭧ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ
ﻣﯿﮟ ﺧﺰﺍﮞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ 
ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻧﮑﮭﺎﺭ ﺗﮭﺎ
ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﮞ
 ﮐﯿﻮﮞ ﺍﻟﮓ ﮨﻮﮰ ﯾﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﺮﯾﺰ ﺗﮭﺎ
 ﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧَﺎ ﮐﺎ ﺣﺼﺎﺭ ﺗﮭﺎ
ﻭﮦ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﮐﮩﯿﮟ
 ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺘﺎﺩﮮ ﺍُﺳﮯ ﺫﺭﺍ
ﻣﯿﺮﮮ ﻓﻦِ ﺷﻌﺮ ﮐﯽ ﺑﮯ ﺧﻮﺩﯼ
 ﺗﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﮨﯽ ﮐﺎ ﺧﻤﺎﺭ ﺗﮫ


بڑے خلوص سے دل نذرِ جام کرتا ہے




جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے

بڑے خلوص سے دل نذرِ جام کرتا ہے

ہمِیں سے قوسِ قزح کو مِلی ہے رنگینی

ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے



ہمارے چاکِ گریباں سے کھیلنے والو

ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے



یہ میکدہ ہے یہاں کی ہر ایک شے کا حضور

غمِ حیات بہت احترام کرتا ہے



فقیہہِ شہر نے تُہمت لگائی ساغرؔ پر

یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے



ساغرؔ صدیقی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ