‘‘کبھی عشق ہو تو پتہ چلے‘‘
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
کہ بساط جاں پہ عذاب اترتے ہیں کس طرح
شب و روز دل پہ عتاب اترتے ہیں کس طرح
کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
یہ لوگ سے ہیں چھپے ہوئے پس دوستاں
تو یہ کون ہیں
یہ روگ سے ہیں چھپے ہوئے پس جسم و جاں
تو یہ کس لئے
یہ جو کان ہیں میرے آہٹوں پہ لگے ہوئے
تو یہ کیوں بھلا
یہ ہونٹ ہیں صف دوستاں میں سلےہوئے
تو یہ کس لئے
یہ جو اضطراب رچا ہواہے وجود میں
تو یہ کیوں بھلا
یہ جو سنگ سا کوئی آ گرا ہے جمود میں
تو یہ کس لیے
یہ جو دل میں درد چھڑا ہوا ہے لطیف سا
تو یہ کب سے ہے
یہ جو پتلیوں میں عکس ہے کوئی لطیف سا
سو یہ کب سے ہے
یہ جو آنکھ میں کوئی برف سی ہے جمی ہوئی
تو یہ کس لیے
یہ جو دوستوں میں نئی نئی ہےکمی ہوئی
تو یہ کیوں بھلا
یہ لوگ پیچھے پڑے ہوئے ہیں فضول میں
انہیں کیا پتہ
انہیں کیا خبر
کسی راہ کہ کسی موڑ پر جو ذرا انہیں
‘‘کبھی عشق ہو تو پتہ چلے‘‘