آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنھیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِامروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے
جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے ، جراءت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے