آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گُزرتے ہیں
کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پُکارتے ہیں
جن سے مربوط، بے نوا، گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بد نما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں ، دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں پہ کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
نام جو کٹ گئے ہیں، اُن کے حرف
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھتے نشانوں پر
چاک سے لائنیں لگاتے ہیں
پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہوں گے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے
اُن کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا!!