افلاک پہ اک دیپ جلا کیوں نہیں دیتے؟

گلزار کو احساس ـ صبا کیوں نہیں دیتے؟
یہ تیرے نفس دل کو جلا کیوں نہیں دیتے؟

جو خاک ترے کوچہ ء رنگیں کی نہیں ہے
اس خاک کو مٹی میں ملا کیوں نہیں دیتے؟

بجلی کو ترے ہاتھ سے گرتا ہوا دیکھوں
افلاک کو رستے سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟

دلداری ء مشتاق ـ وفا کیوں نہیں ہوتی؟
پابند ـمحبت کو دعا کیوں نہیں دیتے؟

خورشید ـتمازت کو مرے گھر میں جلا دو
افلاک پہ اک دیپ جلا کیوں نہیں دیتے؟

ــــــــــعاجز نصیروی ــــــــــ

علی زریون کی بہت خوبصورت غزل

عاشقاں ! جشن - ایلیا آیا 
شاعری ! تیرا دیوتا آیا
شاعراں ! کورنش بجا لاؤ 
میر و غالب کا دلربا آیا
اہل - دانش ! سلام پیش کرو 
نازش - علم و فلسفہ آیا
فارھہ ! (اے دروغ گو لڑکی )
تیرا مظلوم و مبتلا آیا
صد مبارک ! ہزار تسلیمات 
اہل - حالت کا حالیہ آیا
جون آیا ؟؟ نہیں نہیں صاحب 
یہ تو قدرت کا فیصلہ آیا ..!
اپنی تعظیم کر ! ترے لب پر
مصرع - جون ایلیا آیا ..!
کیا عجب ہے کہ وہ جو تھا ہی نہیں 
لے کے "ہونے" کا معجزہ آیا ..!!
آسماں پر نہ تھا کوئی اس کا 
سو زمیں پر وہ برملا آیا ..
صاحب - کیفیت بہت ہیں ،مگر 
لطف آیا تو جون کا آیا ..!
مرقد - جون پر گیا تھا تو ؟
فاتحہ پڑھ کے ہی چلا آیا ؟؟؟
"حاصل - کن ہے یہ جہان _ خراب"
مصرع پڑھتے ہی پیار سا آیا...!
بر سر _ ارض - شاعری زریون 
جون ایسا نہ دوسرا آیا ..!

کبھی جو نام کی خاطر لڑی تھی

کبھی جو نام کی خاطر لڑی تھی
میاں وہ جنگ بھی بس نام کی تھی

کبھی میں بھی اسی کو سوچتا تھا
سو میری گفتگو بھی شاعری تھی

ہماری چار دن کی زندگی میں
جنوں تھا، دشت تھا، آوارگی تھی

کویئ صحرا سمندر ہو گیا تھا
سمندر کی بڑی دریا دلی تھی

کبھی ہم زندگی کرتے تھے عاجز!
کبھی جذبات سے وابستگی تھی

ــــــــــ عاجز نصیروی ـــــــــ

میں نے کہا چاند سے زیادہ کچھ روشن ہے؟ | امیر خسرو

گفتم کہ روشن از قمر گفتا کہ رخسار منست
گفتم کہ شیرین از شکر گفتا کہ گفتار منست

میں نے کہا چاند سے زیادہ کچھ روشن ہے؟ کہا میرے رخسار
میں نے کہا شکر سے زیادہ میٹھا کچھ ہے؟کہا میری گفتار

گفتم طریق عاشقان گفتا وفاداری بود
گفتم مکن جور و جفا، گفتا کہ این کار منست

میں نے کہا عاشقوں کا طریق کیا ہے؟ کہا محبوب سے وفاداری
میں نے کہا کہ جور و جفا نہ کیجیے، کہا یہ تومیرا کام ہے

گفتم کہ مرگِ ناگہاں، گفتا کہ درد هجر من
گفتم علاج زندگی ،گفتا کہ دیدار منست

میں نے کہا مرگ ناگہاں کیا ہے؟ کہا میرے ہجر کا درد
میں نے کہا زندگی کا علاج کیا ہے؟ کہا میرا دیدار

گفتم کہ حوری یا پری ، گفتا کہ من شاه ِ بتاں
گفتم کہ خسرو ناتوان گفتا پرستار منست

میں نے کہا کہ یہ حور و پری کیا ہے؟ 

کہا میں خوبرووں کاباد شاہ ہوں، میرا مقام ان سے بلند ہے
میں نے کہا کہ خسرو تو ناتواں ہے، کہا میرا پرستار تو ہے

امیر خسرو

آخری چند دن دسمبر کے

آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گُزرتے ہیں
کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سایوں کی

ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پُکارتے ہیں
جن سے مربوط، بے نوا، گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے

کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بد نما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں ، دائرے بناتی ہیں

دھیان کی سیڑھیوں پہ کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
نام جو کٹ گئے ہیں، اُن کے حرف
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھتے نشانوں پر
چاک سے لائنیں لگاتے ہیں

پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے

کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہوں گے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے
اُن کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا!!

mere ishq dy wich maashok na ho | baba bully shah


sajda e ishq main maza aata hai


محبت کے دسمبر میں اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے

محبت کے دسمبر میں

اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے
تمہارا خط نہیں آیا نہ کوئی فون آیا ہے

تو کیا تم کھو گئے اجنبی چہروں کے جنگل میں
مسافر مل گیا کوئی ، کسی منزل کسی پل میں

عقیدت کے سنہرے پھول
چپکے سے کسی نے باندھ ڈالے آ کے آنچل میں

یکایک موڑ کوئی آگیا چاہت کی منزل میں
خیال وعدہء برباد بھی تم کو نہیں آیا
تو کیا
میں یاد بھی تم کو نہیں آیا.

ﺍﮎ ﺿﯿﺎﺀ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ

ﺍﮎ ﺿﯿﺎﺀ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺭﺥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺣﺼّﮯ ﻣﯿﮟ
ﺣﺴﻦ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﯽ
ﺍﮎ ﺍﺩﺍ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
ﮔﺮﻡ ﺧﻮﮞ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﮎ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ
ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﻣﮑﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﮎ ﻃﺮﻑ ﮐﮭﮍﮮ ﺗﻨﮩﺎ
ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﮐﻮ ﺭﺳﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ
ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺑﺴﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﺑﮯ ﮐﺸﺶ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﯿﺴﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮﺩ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ

ٹوٹ کر ذرا دیکھو تم اگر بکھر جاؤ

ٹوٹ کر ذرا دیکھو

تم اگر بکھر جاؤ
بے بسی میں گِھر جاؤ
دل سے اک صدا دینا
بس مجھے بلا لینا
میں تمھیں سنبھالوں گا
زندگی میں چلنے کا،
 راستہ بدلنے کا
اک ھنر سکھا دوں گا
تم کو حوصلہ دوں گا
اور جب سنبھل جاؤ
روشنی میں ڈھل جاؤ
مجھ کو یوں صلہ دینا
تم مجھے بھلا دینا
تم مجھے بھلا دینا

‘‘کبھی عشق ہو تو پتہ چلے‘‘ | "امجد اسلام امجد"



‘‘کبھی عشق ہو تو پتہ چلے‘‘

کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
کہ بساط جاں پہ عذاب اترتے ہیں کس طرح
شب و روز دل پہ عتاب اترتے ہیں کس طرح

کبھی عشق ہو تو پتہ چلے
یہ لوگ سے ہیں چھپے ہوئے پس دوستاں
تو یہ کون ہیں
یہ روگ سے ہیں چھپے ہوئے پس جسم و جاں
تو یہ کس لئے
یہ جو کان ہیں میرے آہٹوں پہ لگے ہوئے 
تو یہ کیوں بھلا
یہ ہونٹ ہیں صف دوستاں میں سلےہوئے
تو یہ کس لئے
یہ جو اضطراب رچا ہواہے وجود میں
تو یہ کیوں بھلا
یہ جو سنگ سا کوئی آ گرا ہے جمود میں
تو یہ کس لیے
یہ جو دل میں درد چھڑا ہوا ہے لطیف سا
تو یہ کب سے ہے
یہ جو پتلیوں میں عکس ہے کوئی لطیف سا
سو یہ کب سے ہے
یہ جو آنکھ میں کوئی برف سی ہے جمی ہوئی
تو یہ کس لیے
یہ جو دوستوں میں نئی نئی ہےکمی ہوئی
تو یہ کیوں بھلا
یہ لوگ پیچھے پڑے ہوئے ہیں فضول میں
انہیں کیا پتہ
انہیں کیا خبر
کسی راہ کہ کسی موڑ پر جو ذرا انہیں

‘‘کبھی عشق ہو تو پتہ چلے‘‘

فیض احمد فیض


آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول

ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول

تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے

باندھ کر آرزو کے پلے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

فیض احمد فیض

پردیسیوں کے دکھ ایک ماں کا درد آپ کو رلا دے گا





زندگی کے حادثوں میں

زندگی کے حادثوں میں وہ حادثہ اچھا لگا

سب بت یہاں اچھے مگر پتھر کا بت اچھا لگا

تلخ یاد یں ہی سہی انکی ہمارے پاس ہیں
ہم کو قدرت کا یہ تحفہ حافظہ اچھا لگا

رنج و غم اور الجھنیں سب کچھ ہمارے پاس ہیں
پھر بھی کسی کی یاد میں جلنا بہت اچھا لگا

زندگی کی بھیڑ میں روشنی گو کم سہی
ہم کو اس ہی بھیڑ میں سامنا اچھا لگا

شاعری اس دور میں زیست کا حاصل بنی
سب کو بھی اچھی لگی مجھ کو بھی اچھا لگا

وقت گزاری کے لیے کچھ ڈھنگ ہونے چاہیئں
اس مشینی دور میں فی الوقت یہی اچھا لگا

ہم کو کسی کی یاد سے کیا واسطہ اعجاز
پر واسطوں کے درمیاں یہ واسطہ اچھا لگا

ھمتِ التجا نہیں باقی ۔ فیض

ھمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
اک تری دید چھن گئ مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اپنے مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھیںچ
میں نہیں یا وفا نہیں باقی
ترے چشمِ عالم نواز کی خیر
دل میں کوئئ گلہ نہیں باقی
ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال
زندگی میں مزا نہیں باقی

ہر حقیقت مجاز ہو جائے ۔ فیض


ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
منتِ چارہ ساز کون کرے
درد جب جاں نواز ہو جائے
عشق دل میں رہے تو رسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
لطف کا انتظار کر تا ہوں
جور تا حدِ نا ز ہو جا ئے
عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض
کا ش افشائ راز ہو جائے

زندگی کے حادثوں میں


زندگی کے حادثوں میں وہ حادثہ اچھا لگا
سب بت یہاں اچھے مگر پتھر کا بت اچھا لگا

تلخ یاد یں ہی سہی انکی ہمارے پاس ہیں
ہم کو قدرت کا یہ تحفہ حافظہ اچھا لگا

رنج و غم اور الجھنیں سب کچھ ہمارے پاس ہیں
پھر بھی کسی کی یاد میں جلنا بہت اچھا لگا

زندگی کی بھیڑ میں روشنی گو کم سہی
ہم کو اس ہی بھیڑ میں سامنا اچھا لگا

شاعری اس دور میں زیست کا حاصل بنی
سب کو بھی اچھی لگی مجھ کو بھی اچھا لگا

وقت گزاری کے لیے کچھ ڈھنگ ہونے چاہیئں
اس مشینی دور میں فی الوقت یہی اچھا لگا

ہم کو کسی کی یاد سے کیا واسطہ اعجاز
پر واسطوں کے درمیاں یہ واسطہ اچھا لگا

دعا ۔ فیض


آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنھیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہرِامروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے

جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے

جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو
ہمت کفر ملے ، جراءت تحقیق ملے
جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو
دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

ایسی بهی محبت کی سزا دیتی ہے دنیا


ایسی بهی محبت کی سزا دیتی ہے دنیا
مر جائیں تو جینے کی دعا دیتی ہے دنیا

ہم کون سے مومن تهے جو الزام نہ سہتے
پهتر کو بھگوان بنا دیتی ہے دنیا

یہ زخم محبت کا ہے دکھانا نہ کسی کو
لا کر سرے بازار سجا دیتی ہے دنیا

قسمت پر کرو ناز نہ اتنا فقیرو
ہاتھوں کی لکیروں کو مٹایا دیتی ہے دنیا

مرنے کے لئے کرتی ہے مجبور تو لیکن
جینے کے طریقے بهی سکھایا دیتی ہے دنیا

ایسی بهی محبت کی سزا دیتی ہے دنیا




سچ ہے کبھی اظہار کی جرآت نہ کرسکا
لیکن یہ نہیں ہے، کہ محبت نہ کر سکا

ہم نے تو انتظار میں اک عمر گزاری
وہ اپنی ایک شام عنایت نہ کر سکا

کچھ یوں غم دوراں نے مجھے گهیر کے رکها
بچپن میں بھی میں کوئی شرارت نہ کر سکا

اب تک ہیں پتلیوں میں زمانے کے ڈر سے قید
میں اپنے آنسوؤں کی زضمانت نہ کر سکا.....




baba fareed


khamosh muhabbat