آج تھوڑا سا غم سنا ڈالا
میں نے بت کا بھی سر ہلا ڈالا

رات آنکھوں سے کیوں شکایت کی

شدتِ درد نے رُلا ڈالا

خاک ہوتے ، دھواں نہیں ہوتے
اُس نے محفل سے کیوں اٹھا ڈالا

تھا نہ میرے وجود کا قصّہ
میرے دامن میں آ کے لا ڈالا

بھول جانے کا سلسلہ تم نے
یاد رکھا یا پھر بھلا ڈالا

داستاں بن کے آ گیا لب تک
جیبِ دل میں جو حرف تھا ڈالا

جان کھاتا تھا تیرے ملنے کو
آخر اس دل کو غم نے کھا ڈالا