اُ س کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے

دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقشِ پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے

تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی
اب حذر ہوتا ہے اس رات سے آتے جاتے

شہرِ بے مہر کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
ایک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے

پارۂ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے
دُور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے

ہر گھڑی اک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے

اُ س کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے