لیکن میرے سامنے آ کر وہ اور بھی کچھ انجان ھوا


جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا
اپنا کیا ھے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ھوا

یہ دل،یہ آسیب کی نگری،مسکن سوچوں وھموں کا
سوچ رھا ھوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ھوا؟

صحرا کی منہ زور ھوائیں اوروں سے منسوب ھوئیں
مفت میں ھم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ھوا

میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ھیں انسان تو پھر انسان ھوا

اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ھوا

کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا
آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ھوا

اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
اس سے کیسا شکوہ کیجیے وہ تو ابھی نادان ھوا

جن اشکوں کی پھیکی لو کو ھم بیکار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ھوا

یوں بھی کم آمیز تھا"محسن"وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر وہ اور بھی کچھ انجان ھوا