دل دکھانے کی انتہا کر دی
آزمانے کی انتہا کر دی

تیر تحفے میں بھیج کر دل کو
ظلم ڈھانے کی انتہا کر دی

چونک کر نام پوچھنے والے
بھول جانے کی انتہا کر دی

جیت نے مات اوڑھ لی گویا
سر جھکانے کی انتہا کر دی

دل کو ناسور کر لیا آخر
گھاؤ کھانے کی انتہا کر دی

پھر پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا
اس کو پا نے کی انتہا کر دی

تا فلک ہو گیا دھواں سا بتول
راکھ اڑانے کی انتہا کر دی