خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں

ہر اینٹ سوچھتی ہے کہ  دیوار مجھ سے ہے



خشک ہونٹوں سے ہی ہُوا کرتی ہیں  پیار کی باتیں محسن


پیاس بجھ جائے تو اکثر لہجہ بھی بدل جاتا ہے



عطا جسے تیرا عکس جمال ہوتا ہے

عطا جسے تیرا عکس جمال ہوتا ہے
وہ پھول سارے گلستاں کا لال ہو تا ہے

راہیں مجاز میں ہیں منزلیں حقیقت کی
مگر یہ اہل نظر کا خیال ہوتا ہے

تلاش کرتی ہے سایہ تمھارے آنچل کا
چمن میں باد صبا کا یہ حال ہوتا ہے

بہارے فطرت صیاد کی کہانی ہے
کہ اس کے دوش پہ پھولوں کا جال ہوتا ہے

یہ واردات بھی اب دل پہ روز ہوتی ہے
مسرتوں میں بھی ہم کو ملال ہوتا ہے

یہ بکھرے بکھرے سے گیسو، تھکی تھکی آنکھیں
کہ جیسے کوئی گلستاں نڈھال ہوتا ہے

جواب دے نہ سکے جس کا دوجہاں ساغر
کسی غریب کے دل کا سوال ہوتا ہے

میں بتا دوں تمہیں ہربات ضروری تو نہیں | پروین شاکر

میں بتا دوں تمہیں ہربات ضروری تو نہیں
آخری ہو یہ ملاقات ضروری تو نہیں

جیت جانا تمہیں دشوار نہیں لگتا تھا
آج بھی ہوگی مجھے مات ضروری تو نہیں

آدمی فہم و ذکاء سے ہے مزین لیکن
بند ہو جائے خرافات ضروری تو نہیں

دل کی راہوں پہ کڑا پہرا ہے خوش فہمی کا
مجھ سے کھیلیں میرے جذبات ضروری تو نہیں

امتحاں گاہ سے تو جاتے ہیں سبھی خوش ہوکر
ٹھیک ہوں سب کے جوابات ضروری تو نہیں

ممتحن میں تو تیرے نام سے لرزاں تھی مگر
تیرے تیکھے ہوں سوالات ضروری تو نہیں

مجھ کو انسان کی قدریں بھی بہت بھاتی ہیں
بیش قیمت ہوں جمادات ضروری تو نہیں

یوں تو زر اور زمیں بھی ہیں مگر عورت ہو
باعث وجہ فسادات ضروری تو نہیں

ہر نئے سال کی آمد پر یہ کیوں سوچتی ہوں
اب بدل جائیں گے حالات ضروری تو نہیں

پروین شاکر

Top of Form




میں ہوں عالمِ وجد میں، مجھے کیا خبر
تو ایک کام کر، تو بھی تماشائی ہو جا !!

لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں


لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں

اور جام ٹوٹیں گے اس شراب خانے میں
موسموں کے آنے میں، موسموں کے جانے میں

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

فاختہ کی مجبوری یہ بھی کہہ نہیں سکتی
کون سانپ رکھتا ہے اس کے آشیانے میں

دوسری کوئی لڑکی زندگی میں آئے گی
کتنی دیر لگتی ہے اُس کو بھول جانے میں


شاعر : بشیر بدر