عطا جسے تیرا عکس جمال ہوتا ہے
وہ پھول سارے گلستاں کا لال ہو تا ہے
راہیں مجاز میں ہیں منزلیں حقیقت کی
مگر یہ اہل نظر کا خیال ہوتا ہے
تلاش کرتی ہے سایہ تمھارے آنچل کا
چمن میں باد صبا کا یہ حال ہوتا ہے
بہارے فطرت صیاد کی کہانی ہے
کہ اس کے دوش پہ پھولوں کا جال ہوتا ہے
یہ واردات بھی اب دل پہ روز ہوتی ہے
مسرتوں میں بھی ہم کو ملال ہوتا ہے
یہ بکھرے بکھرے سے گیسو، تھکی تھکی آنکھیں
کہ جیسے کوئی گلستاں نڈھال ہوتا ہے
جواب دے نہ سکے جس کا دوجہاں ساغر
کسی غریب کے دل کا سوال ہوتا ہے