کس کو قاتل میں کہوں کس کو مسیحا سمجھوں
سب یہاں دوست ہی بیٹھے ہیں کسے کیا سمجھوں
وہ بھی کیا دن تھے کہ ہر وہم یقیں ہوتا تھا
اب حقیقت نظر آئے تو اسے کیا سمجھوں
دل جو ٹوٹا تو کئی ہاتھ دعا کو اٹّھے
ایسے ماحول میں اب کس کو پرایا سمجھوں
ظلم یہ ہے کہ ہے یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں