اقبال ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں



اقبال ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں

دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاﺅں
ملتا ہے کہاں خوشہءگندم کہ جلاﺅں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاﺅں
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے کٹتی نہیں کوئی زنجیر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مُلّا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے، لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاﺅں کہاں سے
!وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارِ گراں سے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے کبھی جی، جی کے مرے ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاﺅس پہ آ کر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں

کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں