پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم
تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم
رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!
آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدّھم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم!
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم
تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم
رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!
آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدّھم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم!
سات سروں کا بہتا دریا تیرے نام
ہر سر میں اِک رنگ دھنک کا تیرے نام
جنگل جنگل اڑنے والے سب موسم
اور ہوا کا سبز دوپٹہ تیرے نام
ہجر کی شام اکیلی رات کے خالی در
صبحِ فراق کا درد اجالا تیرے نام
تیرے بنا جو عمر بتائی بیت گئی
اب اس عمر کا باقی حصہ تیرے نام
جتنے خواب خدا نے میرے نام لکھے
ان خوابوں کا ریشہ ریشہ تیرے نام
اقبال ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں
اقبال ! ترے دیس کا کیا حال سناﺅں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاﺅں
ملتا ہے کہاں خوشہءگندم کہ جلاﺅں
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاﺅں
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے کٹتی نہیں کوئی زنجیر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے
ملتی ہوئی مُلّا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے، لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو میں اب لاﺅں کہاں سے
!وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو
اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارِ گراں سے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے کبھی جی، جی کے مرے ہے
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر
شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر
آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سو گئی طاﺅس پہ آ کر
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن
قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں
جب سے دیکھا ھے ان کی آنکھوں کو مین خدا کے کمال میں ____ گم ہوں
کوئی جسکی نہیں _____ نظیر کہیںجلوہء بے مثال میں _______ گم ہوں
یہ نہیں ہے شراب کا ________ نشّہمیکدے کے خیال میں گم _____ ہوں
حسن ھے تجھ میں یا کہ تجھ سے ھےمیں اسی اک سوال میں گم ____ ہوں
ایک لمحہ جو تیرے قرب کا _____ تھا اسی لمحہء وصال میں گم ____ ہوں
آج تھوڑا سا غم سنا ڈالا
میں نے بت کا بھی سر ہلا ڈالا
رات آنکھوں سے کیوں شکایت کی
شدتِ درد نے رُلا ڈالا
خاک ہوتے ، دھواں نہیں ہوتے
اُس نے محفل سے کیوں اٹھا ڈالا
تھا نہ میرے وجود کا قصّہ
میرے دامن میں آ کے لا ڈالا
بھول جانے کا سلسلہ تم نے
یاد رکھا یا پھر بھلا ڈالا
داستاں بن کے آ گیا لب تک
جیبِ دل میں جو حرف تھا ڈالا
جان کھاتا تھا تیرے ملنے کو
آخر اس دل کو غم نے کھا ڈالا
میں نے رات سے پوچھا
میرے گھر سے چوری ہوجانے والا خواب
تمہارے پاس تو نہیں؟
میرے ہمسائے کے بچوں کے خواب
گھروں میں بیٹھی جوان لڑکیوں کے خواب
شہر سے ہجرت کر جانے والے سارے خواب
تمہارے پاس تو نہیں؟
رات میری آنکھوں میں جھانک کر بولی
اتنے سارے خواب کا چوری ہوجانا
اور شور نہ مچنا
اتنے سارے خوابوں کا قتل ہوجانا
اور سراغ نہ ملنا
اتنی ساری لاشوں کا دریا میں بہا دیا جانا
اور پانی کا رنگ نہ بدلنا
کیسے ممکن ہے
تمہاری مرضی کے بغیر
تمہارے شرکت کے بغیر"
پھر وہ گود میں اٹھایا ہوا چاند
میری طرف بڑھا کر بولی
"اس کے سر پر ہاتھ رکھو
اور قسم کھاؤ اپنی بے گناہی کی اپنی معصومیت کی"
اور میں اس کا منہ تکتا رہ گیا !
تمہارے پاس تو نہیں؟
میرے ہمسائے کے بچوں کے خواب
گھروں میں بیٹھی جوان لڑکیوں کے خواب
شہر سے ہجرت کر جانے والے سارے خواب
تمہارے پاس تو نہیں؟
رات میری آنکھوں میں جھانک کر بولی
اتنے سارے خواب کا چوری ہوجانا
اور شور نہ مچنا
اتنے سارے خوابوں کا قتل ہوجانا
اور سراغ نہ ملنا
اتنی ساری لاشوں کا دریا میں بہا دیا جانا
اور پانی کا رنگ نہ بدلنا
کیسے ممکن ہے
تمہاری مرضی کے بغیر
تمہارے شرکت کے بغیر"
پھر وہ گود میں اٹھایا ہوا چاند
میری طرف بڑھا کر بولی
"اس کے سر پر ہاتھ رکھو
اور قسم کھاؤ اپنی بے گناہی کی اپنی معصومیت کی"
اور میں اس کا منہ تکتا رہ گیا !
Subscribe to:
Posts (Atom)