اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھ کو تو جُستجو


اُس نے کہا ، کہ کلیوں کی مُجھ کو تو جُستجو
بھنورے سے مِلتی جُلتی ہے میں نے کہا یہ خُو

پُوچھا، بتاؤ درد کو چھُو کر لگا ہے کیا ؟
آیا جواب ، پوروں سے رسنے لگا لہو

دیکھا ہے کیا فلک پہ وہ تنہا اُداس چاند؟
آیا جواب ، اُس کو کسی کی ہے جُستجو !

ہوتی ہے کیوں یہ اَشکوں کی برسات رات بھر
آیا جواب ، آنکھوں کا ہوتا ہے یُوں وضو

پُوچھا گیا نصیب کے سُورج کا کیا بنا ؟
میں نے کہا وہ سو گیا ، ایسا بنا عدو

پُوچھا ، نمی سے ، دھُند سی آنکھوں میں کس لئے ؟
آیا جواب ، ہجر کی ان میں ہوئی نمو

پُوچھا ، بچھڑتے پل کی کوئی اَن کہی ہے یاد ؟
تارِ نفس پہ لکھی ہے اب تک وہ گفتگو

پوچھا ، سنو وصال کی چٹخی ہے کیوں زباں؟
میں نے کہا ، فراق کا صحرا تھا رُو برو